استاد قمر جلالوی ۔۔۔ غزلیں

نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے
یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے
محبت ہو تو جوئے شِیر کو اِک ضرب کافی ہے
کوئی پوچھے کہ تو نے کتنے تیشے کوہکن بدلے
سہولت اس سے بڑھ کر کارواں کو اور کیا ہو گی
نئی راہیں نکل آئیں پرانے راہزن بدلے
ہوا آخر نہ ہمسر کوئی ان کے روئے روشن کا
تراشے گل بھی شمعوں کے چراغِ انجمن بدلے
لباسِ نَو عدم والوں کو یوں احباب دیتے ہیں
کہ اب ان کے قیامت تک نہ جائیں گے کفن بدلے
قمر مابینِ عرش و فرش لاکھوں انقلاب آئے
مگر اپنا خدا بدلا نہ اپنے پنجتنؑ بدلے

۔۔۔۔۔۔۔۔

دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لیئے ہوئے
دل کو ہے درد ،درد کو ہے دل لیئے ہوئے
دیکھا خدا پہ چھوڑ کہ کشتی کو نا خدا 
جیسے خود آگیا کوئی ساحل لیئے ہوئے
دیکھو ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے
تم رات دن ستاؤ مگر دل لیئے ہوئے
وہ شب  بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں 
اور تم اٹھے تھے رونقِ محفل لیئے ہوئے
بیٹھا جو دل تو چاند دکھا کر کہا قمر 
وہ سامنے چراغ ہے منزل لیئے ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں
وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں
اس نے کس جملے کو سن کر کہہ دیا تجھ سے کہ خیر
نامہ  بر میں یہ جوابِ مختصر سمجھا نہیں
اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے
میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں
تہمتیں ہیں مجھ پہ گمرا ہی کی گستاخی معاف
خضر سا رہبر تمہاری رہگزر سمجھا نہیں
ہے مرض وہ کون سا جس کا نہیں ہوتا علاج
بس یہ کہیے دردِ دل کو چارہ گر سمجھا نہیں
داغِ دل اس سے نہ پوچھا حالِ شامِ غم کے ساتھ
تم کو صورت سے وہ شاید  اے قمر سمجھا نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم کی راہ کو نقصان بت خانے سے کیا ہوگا
خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہوگا
کسے سمجھا رہے ہیں آپ سمجھانے سے کیا ہوگا
بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہوگا
ارے کافر سمجھ لے انقلاب آنے سے کیا ہوگا
بنا کعبہ سے بت خانہ تو بت خانے کو کیا ہوگا
نمازی سوئے مسجد جا رہے ہیں شیخ ابھی تھم جا
نکلتے کوئی دیکھے گا جو مے خانے سے کیا ہوگا
خدا  آباد رکھے میکدہ یہ تو سمجھ ساقی
ہزاروں بادہ کش ہیں ایک پیمانے سے کیا ہوگا
تم اپنی ٹھوکریں کا ہے کو روکو دل کو کیوں مارو
ہمیں جب مٹ گئے تو قبر مٹ جانے سے کیا ہو گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گو دورِ جام بزم میں تا ختمِ شب  رہا
لیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مصیبت میں کب رہا
بس رات بھر جلا تری محفل میں جب  رہا
ساقی کی بزم  میں یہ نظامِ ادب رہا
جس نے اٹھائی آنکھ وہی تشنہ لب رہا
سرکار پوچھتے ہیں  خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے اب رہا
بحر ِجہاں میں ساحلِ خاموش بن کے دیکھ
موجیں پڑیں گی پاؤں جو تو تشنہ لب رہا
وہ چودھویں کا چاند نہ آیا نظر قمر
میں اشتیاقِ دید میں تا ختمِ شب  رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے
آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے
دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر  تیلی پہ ہیں
ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے
دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد
پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے
اپنے دیوانوں کو تم روکو بہاریں آ گئیں
اب کنارہ بابِ زنداں سے نگہباں کر چلے
اے قمر حالِ شبِ  فرقت نہ ہم سے چھپ سکا
داغِ دِل سارے زمانے میں نمایاں کر چلے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سن کے نامِ  عشق برہم وہ بتِ خود کام ہے
میں نہ سمجھا تھا محبت اس قدر بدنام ہے
نامہ بر  ان سے نہ کہنا نزع کا ہنگام ہے
ابتدائے خط نہیں یہ آخری  پیغام ہے
چارہ گر میرے سکوں پر یہ نہ کہہ آرام ہے
اضطرابِ دل نہ ہونا  موت کا پیغام ہے
ان کے جاتے ہی مری آنکھوں میں دنیا ہے سیاہ
اب نہیں معلوم ہوتا صبح ہے یا شام ہے
قافلے سے چھوٹنے والے ابھی منزل کہاں
دور تک سنسان جنگل ہے پھر آگے شام  ہے
آپ کیوں پردے سے نکلے آپ پردے میں رہیں
آپ کو مشہور کر دینا ہمارا کام ہے
دیدۂ بیمار میں ہے اشکِ آخر  کی جھلک
اے قمر تارا نکل آنا دلیلِ شام ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر  ہے وقت دیکھ لو بھر کر نظر مجھے
بیٹھو نہ ذبح کرنے کو منہ پھیر کر مجھے
کوسوں دکھائی دیتی نہیں رہگزر مجھے
لے جا رہی ہے آج یہ وحشت کدھر مجھے
ایسا بھی ایک وقت  پڑا تھا شبِ الم
حسرت سے دیکھنے لگے دیوار و در مجھے
اے ہم قفس نہ مانگ دعائیں بہار کی
آتے نہیں ہیں راس مرے بال و پر مجھے
عذرِ گناہ حشر میں اور میرے سامنے
انکارِ قتل کیجئے پہچان کر مجھے
تعریف ِحسن کی جو کبھی ان کے سامنے
بولے کہ لگ نہ جائے تمھاری نظر مجھے
لی دی سی اِک نگاہ ستاروں پہ ڈال کے
شرما گئے کہ دیکھ رہا ہے قمر مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment